Saturday, October 23, 2021
گورِ غریباں
نظم طباطبائی
------------------------
وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا
چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے
قدم گھر کی طرف کس شوق سے اٹھتا ہے دہقاں کا
یہ ویرانہ ہے، میں ہوں، اور طائر آشیانوں کے
اندھیرا چھا گیا دنیا نظر سے چھپتی جاتی ہے
جدھر دیکھو اٹھا کر آنکھ ادھر اک هوکا ہے عالم
مگس لیکن کسی جا بھیرویں بے وقت گاتی ہے
جرس کی دور سے آواز آتی ہے کبھی پیہم
کہیں اک گنبد کہنہ پہ بوم خانماں ویراں
فلک کو دیکھ کر شکوؤں کا دفتر باز کرتا ہے
کہ دنیا سے الگ اک گوشہ عزلت میں ہوں پنہاں
قدم پھر کیوں کوئی اس کنج تنہائ میں دھرتا ہے
قطار اک سامنے ہے مولسریوں کے درختوں کی
وہاں قبریں ہیں کچھ .مٹی کے جیسے ڈھیر ہوتے ہیں
ہر اک نے مر کے بس دو گز کفن، دو گز زمیں پائی
بسانے والے جو اس گاؤں کے تھے سب وہ سوتے ہیں
نفس باد سحر کا، نالۂ پر درد بلبل کا
ہوے بے کار سب ان کو اٹھا سکتا نہیں کوئی
ہوئی بے فائدہ مستوں کی هو حق ،شور قلقل کا
ہیں ایسے نیند کے ماتے جگا سکتا نہیں کوئی
نہ چولہے آگ روشن ہے نہ اب انکے گھڑ ے پانی
نہ گھر والوں کو اب کچھ کام ہے فکر شبستاں سے
نہ بی بی کو سر شام انتظار اب ہے نہ حیرانی
نہ بچے دوڑتے ہیں اب کہ لپٹیں آکے داماں سے
وہی ہیں یہ جنھیں وقت عمل مہلت نہ تھی دم بھر
وہی ہیں ہاتھ چلتے رہتے ہی تھے بیشتر جن کے
وہی ہیں یہ جنہوں نے ھل چلائے گیت گا گا کر
بڑے سرکش درختوں کو گراتے تھے تبر جن کے
نہ دیکھیں حال ان لوگوں کا ذلت کی نگاہوں سے
بھرا ہے جن کے سر میں غررہ نوابی و خانی
یہ ان کا کاسہ سر کہہ رہا ہے کج کلاہوں سے
عجب نادان ہیں جن کو ہے فخر تاج سلطانی
................................................
نظم۔۔ سید علی حیدر طباطبائی حیدر یار جنگ
اپ 1269 کو لکھنو مین بیدا ھوئے اودھ کے مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔۔ اودھ کے شہزادوں کے اتالیق بنائے گئے تھے۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد مٹیا برج سے حیدراباد دکن ائے۔۔ نطام کالج مین پروفیسر اردو ھوئے اور تیس سال ملازمت کرنے کے بعد وظیفہ حسن خدمت سے سبکدوش ھوئے 23 می 1933 کو یہین انتقال کیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)


No comments:
Post a Comment