Tuesday, October 26, 2010

غزل بیاد مخدوم، اور محدوم کی غزل اوسی زمین مین

غزل بیاد مخدوم، اور محدوم کی غزل اوسی زمین مین


دراصل فیض کے دیوان مین دو غزلیں ہین بعنواں "مخدوم کی یاد میں" یہ دونوں غزلین فیض نے مخدوم کی زیمن مین کہی ہیں-- ایک پوسٹ مین فیض اور مخدوم کی غزل لکھچکا ھوں-- اب اس پوسٹ مین فیض کی دوسری غزل اوس کے ساتھ مخدوم کی غزل ھم زمین لکھرھا ہوں

غزل فیض
" آوسی انداز سے چل بادِ صبا آخر شب "

یاد کا پھر کوئی دروازہ کُھولا آخری شب

دل مین بکھری کوئی خوشبؤے قبا آخر شب

صبح پُھوٹی تو وہ پہلو سے آُٹھا آخرشب

وہ جو اک عمر سے آیا نہ گیا آخرشب

چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب

کون کرتا ہے وفا عہدِ وفا آخر شب

لمسِ جانا نہ لئے، ہستی پیمانہ لئے

حمد باری کو آُٹھے دستِ دعا آخرشب

گھر جو ویراں تھا سرِ شام وہ کیسے کیسے

فرخت یار نے آباد کیا آخر شب 
جس ادا سےکوئی آیا تھا کبھی اوّل صبح
 
"اوسی انداز سے چل بادِ صبا آخر شب "
 


غزل مخدوم

بڑھ گیا بادہء گلگلوں کا مزہ آکر شب

اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخری شب

منزلیں عشق کی آساں ھوئیں چلتے چلتے

اور چمکا ترا نقشِ کفِ پا آخر شب

کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیر در میخانہ

کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخر شب

سابس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں

کوئی لیتا تھا ترا نام وفا آخر شب

گُل ہے قندیل حرم، گل ہیں کلیسا کے چراغ

سوئے پیمانہ بڑھے دستِ دعا آخر شب

ہائے کس دھوم سے نکلا ہے شہیدوں کا جلوس

جرم چپ سر بہ گریباں ہے جفا آخر شب

اُسی انداز سے پھر صبح کا انچل ڈھلکے

" اُسی انداز سے چل بادِ صبا آخر شب "


Sunday, October 24, 2010

غزل --- ممتاز ناز

غزل --- ممتاز ناز


سر ے محفل ستم کا تیرے چرچا کر دیا ہوتا

میری دیوانگی نے تجھ کو رسوا کر دیا ہوتا

اسی دل کی لگی سے خاک دنیا ہو گئی ہوتی

اسی دل کی لگی نے حشر برپا کر دیا ہوتا

گزر کر درد حد سے کچھ تو ہلکا ہو گیا ہوتا

 
تمہاری بےرخی نے دل کا چارہ کر دیا ہوتا


ہے احساں ہم نے آنکھوں میں سمبھالا ہے انہیں ورنہ

سمندر کو میرے اشکوں نے قطرہ کر دیا ہوتا


نکلنے کو تو اک یہ آرزو میری نکل جاتی

تمنناؤں نے پھر دشوار جینا کر دیا ہوتا


خوشی سے مر بھی ہم جاتے خوشی میں جی بھی ہم اٹھتے



تمہاری اک نظر نے گر اشارہ کر دیا ہوتا


سمائی تھی وو جو 'ممتاز' ساری امر اک شب میں


اسی اک رات نے پھر مجھ کو تنہا کر دیا ہوتا

Saturday, October 23, 2010

غزل مخدوم کی یاد مین فیض آحمد فیض اور خود مخدوم کی غزل

غزل مخدوم کی یاد مین فیض آحمد فیض اور خود مخدوم کی غزل



آپ کی یاد اتی رہی رات بھر



چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر



گاہ جلتی ہُوئی، گاہ بجھتی ھوئی



شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر



کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہین



کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر



پھر صبا سایہ شاخ گل کے تلے



کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر



ھو نہ آیا اُسے کوئی زنجیرِ در



ھر صدا پر ہُلاتی رہی رات بھر



ایک امید سے دل بہلتا رہا



اک تمنّا سناتی رہی رات بھر



ماسکو انیسو اٹہتر







غزل



مخدوم محی الدین



آپ کی یاد آتی رہی رات بھر



چشم نم مسکراتی رہی رات بھر



رات بھر درد کی شمع جلتی رہی



غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر



بانسری کی سریلی سہانی صدا



یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر



کوئی دیوانہ گلیون میں پھرتا رہا



کوئی آواز آتی رہی رات بھر

غزل مخدوم کی یاد مین فیض آحمد فیض

غزل مخدوم کی یاد مین فیض آحمد فیض




آپ کی یاد اتی رہی رات بھر



چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر



گاہ جلتی ہُوئی، گاہ بجھتی ھوئی



شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر



کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہین



کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر



پھر صبا سایہ شاخ گل کے تلے



کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر



ھو نہ آیا اُسے کوئی زنجیرِ در



ھر صدا پر ہُلاتی رہی رات بھر



ایک امید سے دل بہلتا رہا



اک تمنّا سناتی رہی رات بھر



ماسکو انیسو اٹہتر







غزل



مخدوم محی الدین



آپ کی یاد آتی رہی رات بھر



چشم نم مسکراتی رہی رات بھر



رات بھر درد کی شمع جلتی رہی



غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر



بانسری کی سریلی سہانی صدا



یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر



کوئی دیوانہ گلیون میں پھرتا رہا



کوئی آواز آتی رہی رات بھر

Friday, October 22, 2010

ایک زمین مین فانی اور میر کے چند اشعار---

ایک زمین مین فانی اور میر کے چند اشعار




فانی بدایونی


فانی کفِ قاتل میں شمشیر نظر آئی



لے خوابِ محبت کی تعبیر نظر آئی

دل ان کے نہ آنے تک لبریز شکایت تھا

وہ آئے تو اپنی ہی تقصیر نظر آئی

ہر عیش کی محفل میں پروانے کا ماتم تھا

جو شمع نظر ائی دلگیر نظر ائی



میر تقی میر





کچھ موجِ ھوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی


شاہد لپ بہار آئی زنجیر نظر آئی


اس کو تو دل آزاری بے ہیچ تھی یارو


کچھ تم کو ھماری بھی تقصیر نظر ائی


گل بار کرے ہے گا اسباب سفر شاہد

غنچہ کی طرح بلبل، دل گیر نظر آئی



zain571948@gmail.com

Thursday, October 21, 2010

seemab

دل کی بساط کیا تھی نگہِ جمال میں--



ایک آئینہ تھا توٹ گیا دیکھ بھال مین--


صبر آہی جائے گر بسرھو ایک حال میں--


امکاں ایک اور ظلم ہائے قیدِ محال میں--


آذردہ ھوں اس قدر سرابِ خیال سے--


...چہاتا ھے تم بھی نہ او خیال میں--


دنیا ہے خواب، حاصل دنیا خیال ہے--


انسان خواب دیکھ رہا ھے خیال مین--


عمر دو روزہ واقعی خواب و خیال تھی--


کچھ خواب مین گزر گئی کچھ خیال مین--

gazal --- seemab akbarabadi

دل کی بساط کیا تھی نگہِ جمال میں--


ایک آئینہ تھا توٹ گیا دیکھ بھال مین--

صبر آہی جائے گر بسرھو ایک حال میں--

امکاں ایک اور ظلم ہائے قیدِ محال میں--

آذردہ ھوں اس قدر سرابِ خیال سے--

...چہاتا ھے تم بھی نہ او خیال میں--

دنیا ہے خواب، حاصل دنیا خیال ہے--

انسان خواب دیکھ رہا ھے خیال مین--

عمر دو روزہ واقعی خواب و خیال تھی--

کچھ خواب مین گزر گئی کچھ خیال مین--