غزل بیاد مخدوم، اور محدوم کی غزل اوسی زمین مین
دراصل فیض کے دیوان مین دو غزلیں ہین بعنواں "مخدوم کی یاد میں" یہ دونوں غزلین فیض نے مخدوم کی زیمن مین کہی ہیں-- ایک پوسٹ مین فیض اور مخدوم کی غزل لکھچکا ھوں-- اب اس پوسٹ مین فیض کی دوسری غزل اوس کے ساتھ مخدوم کی غزل ھم زمین لکھرھا ہوں
غزل فیض
" آوسی انداز سے چل بادِ صبا آخر شب "
یاد کا پھر کوئی دروازہ کُھولا آخری شب
دل مین بکھری کوئی خوشبؤے قبا آخر شب
صبح پُھوٹی تو وہ پہلو سے آُٹھا آخرشب
وہ جو اک عمر سے آیا نہ گیا آخرشب
چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب
کون کرتا ہے وفا عہدِ وفا آخر شب
لمسِ جانا نہ لئے، ہستی پیمانہ لئے
حمد باری کو آُٹھے دستِ دعا آخرشب
گھر جو ویراں تھا سرِ شام وہ کیسے کیسے
فرخت یار نے آباد کیا آخر شب
جس ادا سےکوئی آیا تھا کبھی اوّل صبح
"اوسی انداز سے چل بادِ صبا آخر شب "
غزل مخدوم
بڑھ گیا بادہء گلگلوں کا مزہ آکر شب
اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخری شب
منزلیں عشق کی آساں ھوئیں چلتے چلتے
اور چمکا ترا نقشِ کفِ پا آخر شب
کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیر در میخانہ
کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخر شب
سابس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں
کوئی لیتا تھا ترا نام وفا آخر شب
گُل ہے قندیل حرم، گل ہیں کلیسا کے چراغ
سوئے پیمانہ بڑھے دستِ دعا آخر شب
ہائے کس دھوم سے نکلا ہے شہیدوں کا جلوس
جرم چپ سر بہ گریباں ہے جفا آخر شب
اُسی انداز سے پھر صبح کا انچل ڈھلکے
" اُسی انداز سے چل بادِ صبا آخر شب "


No comments:
Post a Comment